the etemaad urdu daily news
آیت شریف حدیث شریف وقت نماز
etemaad live tv watch now

ای پیپر

انگلش ویکلی

To Advertise Here
Please Contact
editor@etemaaddaily.com

اوپینین پول

کیا آپ کو لگتا ہے کہ دیویندر فڑنویس مہاراشٹر کے اگلے وزیر اعلیٰ ہوں گے؟

جی ہاں
نہیں
کہہ نہیں سکتے

بقلم: مدثر رشید
ترکی کے مشہور امیرالبحر خیرالدین باربروسہ (جو کہ تاریخ کا شوق رکھنے والوں کیلئے کسی تعریف کے محتاج نہیں) نے ساری عمر شادی نہیں کی تھی اسلئے ان کا جانشین ایک شاگرد "حسن آغا" بنا جس کو یورپی تاریخ میں شیطان شکاری کے نام سے یاد کیا جاتا ہے اور کیوں کیا جاتا ہے؟ یہ بات آج کی اس تحریر کے بعد آپ کو معلوم ہوجائے گی۔
خیرالدین نے اپنی زندگی میں اسپین کے شہنشاہ چارلس کے شکنجے سے نہ صرف اسپینی مسلمانوں کو آزاد کرایا تھا بلکہ چارلس سے الجزائر چھین کر مسلمانوں کو وہاں آباد بھی کیا اور اپنے وفادار ساتھی حسن آغا کو وہاں کا گورنر بھی بنا دیا تھا، خیرالدین کے بعد ترکی کے سلطان سلیمان اعظم نے حسن آغا کو نہ صرف الجزائر کی گورنری پر قائم رکھا بلکہ خیرالدین باربروسہ کا بحری بیڑا بھی عنایت کردیا۔
ادھر دوسری جانب خیر الدین کے فوت ہوتے ہی اسپین کے مسلمانوں کے قاتل بادشاہ چارلس کی ہمت بڑھی اور وہ الجزائر واپس لینے کی غرض سے تیاری کرنے لگا، اس نے اپنے لشکر میں عمدہ نسل کے نایاب گھوڑے تمام یورپ سے منگوا کر شامل کرلئے۔ تاکہ جہازوں سے اتر کر اگر الجزائر میں جنگ لڑنی پڑے تو ان سے کام لیا جاسکے۔
اسپین، اٹلی، وینس اور جرمنی نے مل کر ایک بڑا بحری بیڑا تیار کیا جس میں پوپ نے بھی مذہبی جنونوں پر مشتمل ایک لشکر شامل ہونے کیلئے روانہ کردیا، ان پانچ لشکروں کے جمع ہونے کے بعد یورپ کے وہ قزاق جو خیرالدین کی وجہ سے دبکے بیٹھے تھے باہر نکلے اور اس عظیم لشکر کے ہمراہ ہوگئے، اس بحری لشکر میں کل پانچ سو بڑے جنگی جہاز شامل تھے جن پر کل چھتیس ہزار فوجی سوار تھے۔
دوسری جانب حسن آغا کے پاس چند جہاز اور پانچ ہزار آٹھ سو سپاہی موجود تھے، جن میں سے ترکی کی باقاعدہ افواج کے صرف آٹھ سو سپاہی جبکہ باقی مقامی فوجی تھے۔
یہ ترک سپاہی تمام کے تمام ینی چری تھے، ینی چری کو آپ ایس ایس جی کمانڈوز کہہ لیں۔
عیسائیوں کا متحدہ بحری بیڑہ خراماں خراماں چلتا ہوا الجزائر پہنچا، چارلس کے بیڑے کی کمان یورپ کا سب سے بہترین قزاق ڈوریا کر رہا تھا، ڈوریا نے تمام جہازوں کو سمندر میں پھیلا دیا تاکہ حسن آغا تعداد دیکھ کر مرعوب ہوجائے اور بغیر جنگ کے فتح حاصل کی جاسکے۔
الجزائر شہر کو ایک بڑے چٹان نما پہاڑ کی اوٹ حاصل تھی، وہ چٹان دائرہ کی شکل میں شہر کی ایک جانب کی مکمل حفاظت کر رہی تھی، جبکہ دوسری جانب ایک بڑی فصیل حملہ آوروں کا منہ چڑا رہی تھی، یہ فصیل اتنی بڑی تھی کہ مسلمانوں کی بندرگاہ اور بیڑا بھی اس کے اندر ہی کھڑا تھا۔
حسن آغا اسپینی امیر البحر ڈوریا کو اچھی طرح جانتا تھا کہ کھلے سمندر میں اس کا مقابلہ کرنا سراسر خودکشی ہوگی۔
اسپینی بحری بیڑا الجزائر کی سمندری حدود میں پہنچ گیا لیکن حسن آغا نے کوئی حرکت نہ کی، مسلمانوں نے باہر نکلنے کی اجازت مانگی لیکن حسن آغا نے انہیں منع



کردیا۔
اچانک سمندر میں ایک خطرناک طوفان اٹھا اور اسپینی بیڑے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا، اس طوفان کی زد میں آکر ڈیڑھ سو جہاز ڈوب گئے۔
حسن آغا کے افسروں کو حسن آغا کی جنگی بصیرت کا بخوبی اندازہ ہوگیا کہ اس نے سمندر کو دیکھ کر اندازہ کرلیا تھا کہ طوفان آنے والا ہے، اس طرح مسلمانوں کا بحری بیڑا بالکل محفوظ رہا تھا۔
اس افراتفری میں ڈوریا نے اپنے جہاز الجزائر کے قلعے کے نزدیک لنگرانداز کیے، اس جگہ ساحل کے ساتھ ساتھ پہاڑوں کا ایک چھوٹا سا سلسلہ تھا، ڈوریا نے اپنی فوج کو یہیں جہازوں سے اتارا اور ابھی فوج ٹھیک سے سنبھلی بھی نہ تھی کہ پہاڑ کی چوٹیوں پر چھپی مسلمان فوج نے بڑے بڑے پتھر نیچے لڑھکا دیئے، اور خود بھاگ کر پہاڑی سلسلے میں غائب ہوگئے، اس حادثے میں اسپینی فوج کے مزید سینکڑوں سپاہی ہلاک ہوگئے لیکن وہ تاحال مسلمانوں سے تعداد میں کئی گنا زیادہ تھے۔
ڈوریا نے آگے بڑھ کر قلعے کا محاصرہ کرلیا اور حسن آغا کو پیغام بھجوایا کہ "شہر ہمارے حوالے کردو، مفت میں جان گنوانے سے کیا فائدہ!"
حسن آغا نے جواب دیا کہ "اب ہم دونوں کے درمیان تلوار فیصلہ کرے گی۔"
اسپینیوں نے بارہا قلعہ فتح کرنے کی کوشش کی لیکن مسلمان دیواروں اور برجوں سے ان پر آگ برسا کر انہیں پسپا ہونے پر مجبور کرتے رہے۔ اس آتش بازی میں ہزاروں اسپینی فوجی جل کر راکھ ہوگئے۔
حسن آغا قلعے کے برجوں پر کھڑا اسپینیوں پر مکمل نظر رکھے ہوئے تھا، کچھ ہی دنوں میں جب اسپینی افواج محاصرے کی طوالت اور رسد کی کمی سے اکتاہٹ کا شکار ہوئی تو ایک دن اچانک حسن آغا کے اشارے پر ترکی کے آٹھ سو ینی چری باہر نکلے اور اس زور کا حملہ کیا کہ اسپینیوں کے چھکے چھوٹ گئے اور انہیں میدان چھوڑنے میں ہی عافیت نظر آئی۔
یہ لشکر یہاں سے پسپا ہوکر جب اپنے جہازوں کے پاس پہنچا تو دیکھا کہ پہاڑوں میں غائب ہوئے مسلمانوں نے لشکر کے جانے کے بعد آدھے جہازوں کو آگ لگا دی، جہازوں کی محافظ آفواج میں سے آدھی مسلمانوں کے ہاتھوں کام آگئی تھی، مسلمانوں سے جتنا ہوسکا انہوں نے جہازوں میں آگ بڑھکا دی تھی۔ بقیہ ماندہ محافظ افواج کچھ جہازوں کے لنگر اٹھانے میں کامیاب ہوگئی اسلئے وہ جہاز سمندر میں چلے جانے کی وجہ سے بچ رہے۔
آخرکار اسپینیوں کو اپنے گھوڑوں کو قتل کرنا پڑا کیونکہ جہازوں میں اتنی جگہ باقی نہیں رہی تھی کہ فوج کے ساتھ ساتھ گھوڑوں کو بھی سوار کیا جاسکے۔
اور اسطرح پانچ ممالک کا اتحادی بیڑا جس میں عیسائی قزاقوں کی بھی بڑی تعداد شامل تھی، عبرت کا نشان بن کر اور اپنی تین چوتھائی فوج مروا کر واپس اسپین پہنچا۔
اس واقعے کے بعد یورپ والوں کو احساس ہوگیا کہ حسن آغا ایک کامیاب مجاہد ہے جسے شکست دینا ناممکن ہے۔
اس واقعے کے بعد حسن آغا کو شیطان شکاری کا یورپ میں سمندر کا شیطان شکاری کے نام سے پکارا جانے لگا، اور پھر دوبارہ کبھی کسی یورپین فوج نے الجزائر کا رخ نہ کیا۔
اس پوسٹ کے لئے کوئی تبصرہ نہیں ہے.
تبصرہ کیجئے
نام:
ای میل:
تبصرہ:
بتایا گیا کوڈ داخل کرے:


Can't read the image? click here to refresh
http://st-josephs.in/
https://www.owaisihospital.com/
https://www.darussalambank.com

موسم کا حال

حیدرآباد

etemaad rishtey - a muslim matrimony
© 2025 Etemaad Urdu Daily, All Rights Reserved.